قیادت کا عَلَم تھامے ہوئے ہوں
شہادت کا قلم تھامے ہوئے ہوں
عجب کیا ہاتھ میں ان کے ہیں پتھر
صداقت لا جَرَ م تھامے ہوئے ہوں
نہ جانے کیا دیا جائے گا فتویٰ
کلیسا میں حرَم تھامے ہوئے ہوں
ہے پیاسی روح مانگے یہ تو زمزم
مگر میں جامِ جم تھامے ہوئے ہوں
وہ اخلاقِ کریمانہ جو سیکھے
ہوئے ہیں جو عدَم تھامے ہوئے ہوں
لکھوں گا بات سچی اور کہوں گا
کہ دامانِ حکَم تھامے ہوئے ہوں
وطن کی مجھ سے آتی ہے جو خوشبو
وہ رشتے دم بدم تھامے ہوئے ہوں
مجھے مٹی سے اپنی ہے محبّت
وہیں اپنے قدم تھامے ہوئے ہوں
یہ اشکوں کا سمندر بہہ نہ جائے
ہوئی ہے آنکھ نَم تھامے ہوئے ہوں
سنی جائے گی طارق آہ و زاری
وہ چوکھٹ صبح دم تھامے ہوئے ہوں

1
96
پسندیدگی کا شکریہ ثمینہ رفیق صاحبہ

0