قیادت کا عَلَم تھامے ہوئے ہوں |
شہادت کا قلم تھامے ہوئے ہوں |
عجب کیا ہاتھ میں ان کے ہیں پتھر |
صداقت لا جَرَ م تھامے ہوئے ہوں |
نہ جانے کیا دیا جائے گا فتویٰ |
کلیسا میں حرَم تھامے ہوئے ہوں |
ہے پیاسی روح مانگے یہ تو زمزم |
مگر میں جامِ جم تھامے ہوئے ہوں |
وہ اخلاقِ کریمانہ جو سیکھے |
ہوئے ہیں جو عدَم تھامے ہوئے ہوں |
لکھوں گا بات سچی اور کہوں گا |
کہ دامانِ حکَم تھامے ہوئے ہوں |
وطن کی مجھ سے آتی ہے جو خوشبو |
وہ رشتے دم بدم تھامے ہوئے ہوں |
مجھے مٹی سے اپنی ہے محبّت |
وہیں اپنے قدم تھامے ہوئے ہوں |
یہ اشکوں کا سمندر بہہ نہ جائے |
ہوئی ہے آنکھ نَم تھامے ہوئے ہوں |
سنی جائے گی طارق آہ و زاری |
وہ چوکھٹ صبح دم تھامے ہوئے ہوں |
معلومات