غزل
اِک کام تِرے ذِمّے نمٹا کے چلے جانا
میں بیٹھا ہی رہ جاؤں تُم آ کے چلے جانا
دِل کو ہے یہ خُوش فہمی کہ رسمِ وفا باقی
ہے ضِد پہ اڑا اِس کو سمجھا کے چلے جانا
سِیکھا ہے یہی ہم نے جو دِل کو پڑے بھاری
اُس رُتبے کو عُہدے کو ٹُھکرا کے چلے جانا
بِیمار پڑے ہو گے، بس حفظِ تقدّم کو
دو ٹِیکے ہی لگنے ہیں لگوا کے چلے جانا
بے وقت مُجھے بُوڑھا کر ڈالا، ابھی خُوش ہو
جاں چھوڑ مِری اے دُکھ سجنا کے چلے جا، نا
پلکوں پہ تِری آنسُو، کیا کام تُجھے دیں گے
دامن میں اِنہیں رکھ کر رسواؔ کے چلے جانا
جانا ہے تُمہیں جاؤ، مرضی ہے تُمہاری، پر
کیا بُھول ہوئی اِتنا بتلا کے چلے جانا
بارِش وہ بیاباں کی وہ ٹھہرا ہوا پانی
پانی سے وہ ستُّو کا بس پھاکے چلے جانا
ہیں چور یہاں منہ زور اور ڈاکو بڑے حسرتؔ
پڑ جائیں کہیں دِل پر نا ڈاکے چلے جانا
رشید حسرتؔ

0
191