دیکھا نہ کبھی تُم نے سُنا، دیکھتا ہوں میں |
بس تُم کو نہیں اِس کا پتا دیکھتا ہوں میں |
چہروں کی لکِیروں کے مُجھے قاعدے از بر |
پڑھتا ہوں وہی جو بھی لِکھا دیکھتا ہوں میں |
ماضی کے جھروکوں سے نہیں جھانک ابھی تُو |
(غش کھا کے گِرا) شخص پڑا دیکھتا ہوں میں |
کہنے کو تِرا شہر بہُت روشن و تاباں |
ہر چہرہ مگر اِس میں بُجھا دیکھتا ہوں میں |
گُلشن میں خزاں رُت ہے سمن پِیلے پڑے ہیں |
جاتے ہی تِرے زِیست سے، کیا دیکھتا ہوں میں |
اُس پار گیا جو بھی نہیں لوٹ کے آیا |
کیا بھید چُھپا اِس میں سو جا دیکھتا ہوں میں |
وہ جِس کے بنا زِیست مِری آدھی ادھوری |
رُخ کیسے بدلتا ہے، ادا دیکھتا ہوں میں |
اے دوست نہ بہلا کہ ہوئی بِیچ میں حائل |
کم ہو نہ کبھی جو، وہ خلا دیکھتا ہوں میں |
ویران مِرے دل کا نگر جِس نے بتایا |
جُھوٹا ہے، رشیدؔ اِس کو سجا دیکھتا ہوں میں |
رشید حسرتؔ |
معلومات