میں شاہ تھا غریب سے قسمت بدل گئی
در در کی ٹھوکروں میں مری عمر ڈھل گئی
گذری تھی میرے پاس سے پہچان ہی نہ تھی
قسمت کی اب پری بہت آگے نکل گئی
اس نے مذاق سے جو نشانہ مرا لیا
وہ زنگ سے بھری ہوئی بندوق چل گئی
میں خودکشی کا سوچ کے ساحل پہ آ گیا
کالی گھٹا سے میری طبیعت بہل گئی
میرے تمام خواب ادھورے ہی رہ گئے
شاہدؔ مجھے دو وقت کی روٹی نگل گئی

0
42