اگر چلنا کسی کے نقشِ پا پر اک سعادت ہو
قبول اس کی سمجھ لو زندگی بھر کی ریاضت ہو
نہ دل اپنا رہے باقی نہ جاں کو کہہ سکے اپنا
غرض سارا بدن اپنا اسی کی پھر امانت ہو
کہاں عقل و خرد سے واسطہ رہتا ہے مجنوں کو
گریباں چاک پھرنا دشت میں اس کی علامت ہو
ملے صحبت جو میرِ کارواں کی ساتھ چل دیں ہم
نظر اس کی اگر پڑ جائے دل پر اک قیامت ہو
خدا جب ناخدا بن جائے کشتی پھر کہاں ڈوبے
وہ منزل پر پہنچ جانے کی ایسی اک ضمانت ہو
یہ اس کا کام ہے وہ مشورہ مانے نہیں مانے
جو کہہ دے اس کو کر لیناتقاضائے اطاعت ہو
بچھڑ جاتے ہیں جو بھی کارواں سے ہوں وہ خطرے میں
خدا جانے یہ کیسے پھر بھی لوگوں سے حماقت ہو
ہمیں طارق ملا وہ رہنما جس نے یہ دکھلایا
محبّت گر کرو انساں سے یہ بھی اک کرامت ہو

0
14