نہیں ہے کارگر ظلمت میں تاروں کی تنک تابی |
شبِ تاریک روشن ہے وہ جس سے نورِ مہتابی |
نہ ہو محبوب گر ملت تو کیا حاصل زمانے میں |
جوانوں کی نگہبانی سے ہے مذہب کی شادابی |
مسلماں کب شعورِ آگہی سے آشنا ہونگے |
دلِ رنجور کو لیکن ستاتی ہے یہ بیتابی |
ستارے ملتِ بیضا کے عالم تاب ہو جائے |
ہے اس جرمِ محبت سے مگر آزاد بے خوابی |
بتاؤں کیا دلِ مضطر کی حالت زار افسانہ |
یہ ہے لذت کشی سے دور مثلِ روحِ سیمابی |
تخیل میں مرے ادنی سا جو طوفاں مچلتا ہے |
کبھی بھی تاب لاسکتے نہیں سینا و فارابی |
ستم اس بزمِ عالم میں بتا اس سے بڑا کیا ہو |
ہے خونِ مردِ مومن سے یہاں باطل کی سیرابی |
مگر یہ بھول جاتی ہے عدم نا آشنا یہ قوم |
فساد و یورشِ اغیار میں اندازِ احزابی |
نکل کر لذتِ صحرا نوردی میں فنا ہو جا |
تری تعمیر میں بھی ہے وہی ترکیبِ اعرابی |
غرورِ قیصر و کسریٰ تجھے آواز دیتا ہے |
تری بیباک ہستی عصرِ نو میں ابنِؓ خطابی |
نہ رکھ امید پہلوں سے کہ وہ پھر آ نہیں سکتے |
زمانے سے مٹانا ہے تمہیں ہی فتنۂ صابی |
ترے بازو ہیں فولادی جگر شمشیرِ آہن چاک |
تری ہستی ہے مامورِ ستم رانوں کی سرکوبی |
خودی میں ڈھونڈ اے غافل! محافظ اپنی ملت کا |
نہیں آۓ گا پھر کوئی صلاحؔ الدینؒ ایوبی |
جواں بیدار ہوجائیں یہ یارِ غار ہوجائیں |
کہ ہو شاہی ؔ یہی تیرے مگر اشعار کی خوبی |
معلومات