کب تک خاموش رہوں گا کبھی تو چیخوں گا چلاؤں گا |
ساری زنجیریں توٹیں گی پنجرے سے آزاد ہو جاؤں گا |
یوں سدا اس آوارہ نگری میں آوارہ تو نہیں پھروں گا |
کبھی تو دیوانگی ڈھلکے گی کبھی تو میں ہوش میں آؤں گا |
کب تک ناگن ڈستی رہے گی پل پل رگِ جاں کستی رہے گی |
کبھی تو یہ گردشِ زہر رکے گی کبھی تو میں مر جاؤں گا |
دلکی بستی برباد کروں گا غم ایجاد کروں گا میں |
پھر پیار سے اس پیارے غم کو میں رفتہ رفتہ گنواؤں گا |
پہلے دھندلا دھندلا نیلا نیلا دریا خالی کروں گا |
پھر اس ویرانے میں خوابوں کا کوئی شہر بساؤں گا |
ہونے کی حالت میں دیکھو کتنا آساں ہے سفر کرنا |
خود ہی اپنے اندر سما کر خود ہی سے باہر آؤں گا |
چاہے کہسار ہو جنگل ہو وادی ہو دشت ہو یا خلا ہو |
اپنا رستہ بنا کے میں دریا کی صورت بہہ جاؤں گا |
معلومات