دو چار دنوں کی زندگی ہے
دو چار دنوں کی کٹ گئی ہے
دو چار چراغ بجھ گئے تھے
دو چار دیوں کی روشنی ہے
دو چار ہی باقی رہ گئے ہیں
دو چار کی باری آ گئی ہے
دو چار بتوں سے آشنا ہوں
دو چار سے میری دوستی ہے
دو چار پرندے بچ گئے ہیں
دو چار کو موت لے گئی ہے
دو چار گھروں میں جا کے امّاں
دو چار غبارے بیچتی ہے
دو چار دنوں سے غمزدہ ہوں
دو چار دنوں سے بے کلی ہے
دو چار دعائیں دے گیا وہ
دو چار دعاؤں کی کمی ہے
دو چار قدم کا فاصلہ ہے
دو چار قدم پہ زندگی ہے
وہ روز سراغ تازہ مجھ کو
دو چار گلاب بھیجتی ہے
ارشد سراغ

0
101