دکھ میں بھی دل تھا اس رخِ تابش کے ساتھ ساتھ
آتا رہا مزہ مجھے رنجش کی ساتھ ساتھ
اس شخص سے بڑا کوئی دشمن نہیں کہ جو
یاد آتا ہے بھلانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ
راضی کیا عدو، مجھے دشنام بخش کے
عزت اچھی بنائی نمائش کے ساتھ ساتھ
اور اس سے قبل وہ سبھی شفاف خاکے تھے
چہروں میں رنگ بھرتا ہے سازش کے ساتھ ساتھ
مجھ میں ہے اک گمان کا طوفان سو وہ ہے
ہم بھی تباہ ہیں دلِ آتش کے ساتھ ساتھ
کہتے ہیں زیبؔ اچھا نہیں، کہتے تو ہیں کچھ
ہے کتنا لطف نغمۂِ جنبش کے ساتھ ساتھ

0
54