| دکھ میں بھی دل تھا اس رخِ تابش کے ساتھ ساتھ |
| آتا رہا مزہ مجھے رنجش کی ساتھ ساتھ |
| اس شخص سے بڑا کوئی دشمن نہیں کہ جو |
| یاد آتا ہے بھلانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ |
| راضی کیا عدو، مجھے دشنام بخش کے |
| عزت اچھی بنائی نمائش کے ساتھ ساتھ |
| اور اس سے قبل وہ سبھی شفاف خاکے تھے |
| چہروں میں رنگ بھرتا ہے سازش کے ساتھ ساتھ |
| مجھ میں ہے اک گمان کا طوفان سو وہ ہے |
| ہم بھی تباہ ہیں دلِ آتش کے ساتھ ساتھ |
| کہتے ہیں زیبؔ اچھا نہیں، کہتے تو ہیں کچھ |
| ہے کتنا لطف نغمۂِ جنبش کے ساتھ ساتھ |
معلومات