دل یہ میرا کہیں نہیں جاتا
مجھ سا بندہ کہیں نہیں جاتا
کم نکلتا ہوں اپنے حجرے سے
میں زیادہ کہیں نہیں جاتا
وہ اگر پوچھے کیوں نہیں آیا
اس کو کہنا کہیں نہیں جاتا
آسماں سے ملے بھی عرصہ ہوا
وقت گذرا کہیں نہیں جاتا
دکھ سفر میں بھی ساتھ رہتا ہے
میں اکیلا کہیں نہیں جاتا
میرے شانے کی اس کو عادت ہے
یہ پرندہ کہیں نہیں جاتا
کچھ بدلنا نہیں ہمارے بعد
یہ زمانہ کہیں نہیں جاتا
کوئی منزل نہیں مری ارشد
میرا رستہ کہیں نہیں جاتا ؟
ارشد فرات

0
118