رات تو تیرہ تھی لیکن دن بھی اب تاریک ہے
یا اگر کچھ فرق باقی ہے تو بس باریک ہے
بے سبب غیروں کی باتوں میں نہ یوں آیا کرو
مَیں تو ہوں نزدیک تر تُو اور بھی نزدیک ہے
جب کبھی غُصّہ انہیں آئے تو واللہ صبر کر
کیونکہ یہ غُصّہ نہیں ہے چاہتوں کی بھیک ہے
چونچلے تھے سب جوانی کے فدا ہر ایک پر
لیکن اب تو شکر ہے کافی طبیعت ٹھیک ہے
ہر طرف ناز و ادا کی حسن کی جولانیاں
مجھ کو لگتا ہے یہ ساری حُسن کی تحریک ہے
غمزہ و شوخی ادا میں اب نہیں آنے کے ہم
لد گیا دورِ جوانی اب ذرا تشکیک ہے
مرحلہ مشکل نہیں بس حوصلہ درکار ہے
ہاں اگر کچھ ہے تو بس اک تھوڑی سی تکنیک ہے
ایک ہی کافی ہے جب تو کس لئے ذوقِ نظر
عمر کی دشواریوں میں ہدیۂ تبریک ہے
راز کھُلتا ہے تو کھُل جائے کسے پرواہ امید
لوگوں کی ہر بات میں تنقید ہے تضحیک ہے

0
137