قدموں میں کل پڑا تھا عدو میرے سامنے |
کہتا ہے آج کچھ نہیں تو میرے سامنے |
۔ |
ہمت تو دیکھ میری کہ ڈٹ کے کھڑا ہوں میں |
بکھرا ہے جبکہ میرا لہو میرے سامنے |
۔ |
یہ آنکھیں شوقِ دید میں بے نور ہو چلیں |
نورِ نگاہ آ کبھی تو میرے سامنے |
۔ |
ساقی تری نگاہ سے بے خود ہو جاؤں گا |
یونہی پڑا رہے گا سبو میرے سامنے |
۔ |
تیرے لبوں کے شوق نے پیاسا رکھا مجھے |
جاناں شہد سی جبکہ تھی جو میرے سامنے |
۔ |
یارو! ستم گری کی بھی تب انتہا ہوئی |
تھاما جب اس نے دستِ عدو میرے سامنے |
معلومات