نہ ملاقات نہ اب شوقِ ملاقات رہا |
نہ محبت تھی نہ وہ شعلہِ جذبات رہا |
چلو میں ترک کروں خود کو میں آزاد کروں |
مرے آنگن میں ترا دکھ بھی جو دن رات رہا |
مجھ سے ملنے کو تڑپ جو تُو دکھاتی تھی مجھے |
نہ وہ شدت نہ خیالوں میں مرے ساتھ رہا |
میں بھی مغلوب ہوا ہونگا اناؤں کے سبب |
رابطہ توڑنے میں تیرا بھی کچھ ہاتھ رہا |
اب تو اچھی نہ لگے کوئی بھی موسم کی ادا |
نہ یہ بارش نہ ہی وہ جلوہِ برسات رہا |
اے ہمایوں تُو بھی اب رختِ سفر باندھ کہ تُو |
جو رہا شہر میں تُو باعثِ حالات رہا |
ہمایوں |
معلومات