اب تک اس شہر ستم سے ہیں یادیں وابستہ
تھیں جس سے دل ناداں کی دھڑکنیں وابستہ
جن منزلوں کے کوشاں تھے ہم اے مرے رہبر
ان منزلوں سے تھیں ہی نہیں راہیں وابستہ
اے اڑتے پرندے نہ پوچھ کتنی گہری ہیں
اس پیڑ سے میرے دل کی شاخیں وابستہ
جب سے تو رشک قمر دیکھا ہے تب سے ہی
ترے خوابوں سے ہوگئیں میری آنکھیں وابستہ
بے خیالی میں ہی خدا جانے کس طرح ہوئیں
دل کے ساگر سے درد کی موجیں وابستہ
کس طرح میں بھولوں اس اک شام کو جانِ جاں
فقط اس اک شام سے ہیں کئی شامیں وابستہ

0
98