ہر طرف بکھرے ہوئے ہر سمت پھیلے جال ہیں
دیکھتا ہوں جس طرف چھوٹے بڑے دجّال ہیں
جھونک دیتے ہیں تباہی میں یہ ساری قوم کو
سب کے سب بدمست ہیں سب ہی یہاں بے حال ہیں
حُبِّ دنيا، موت كا ڈر خاک ہم کو کر گیا
غیر قوموں کیلئے بازیچہ ءِ اطفال ہیں
کچھ سمجھ آتا نہیں اور کچھ دکھائی بھی نہ دے
پاک جذبے روح میں اب کر گئے ہڑتال ہیں
میں نے جو سودا کیا تھا بدلے میں ایمان کے
لذتِ لمحہ میں گزرے زندگی کے سال ہیں
دل کے بدلے دل جو دیتے پاس اپنے کچھ نہیں
مضطرب، آشفتہ سر ہم دل سے بھی کنگال ہیں
کیا مزا اس جینے میں اب ڈوب مرنا چاہیے
نفرتوں کی اس نگر میں جسم و جاں پامال ہیں
پست ہمت، بے سر و سامان اپنے کارواں
لٹ گئی سب عزتیں باقی رہے اقوال ہیں
خشک نظریں، بے زبانی اور کچھ ملتا نہیں
بس پشیمانی میں ڈوبے نامہءِ اعمال ہیں
جی رہے ہیں سر جھکا کے قاتلوں کے دیس میں
سب غموں سے دور احسن، ہم بھی کیا دجال ہیں

39