| ہر طرف تو ہی نظر آئے جہاں تک دیکھوں |
| میں تو خود میں ترے ہونے کے نشاں تک دیکھوں |
| چھین لے حس میری یا تٗو مجھے پتھر کر دے |
| اب میں اپنے ہی اجڑنے کو کہاں تک دیکھوں |
| جن ترقی کی منازل پہ نہ پہنچا کوئی |
| میری خواہش ہے کہ میں تجھ کو وہاں تک دیکھوں |
| دل میں کتنے ہی صنم رکھے ہیں کشفی میں نے |
| اس کی موجودگی بس اپنی زباں تک دیکھوں |
| ڈاکٹر رضوان کشفی ایوت محل، مہاراشٹر ، انڈیا |
معلومات