ٹوٹا گھر بسا بھی سکتا ہے
رشتہ پھر، بَنا بھی سکتا ہے
چمنِ برگِ ریزہ کو گُل چیں
دوبارہ سَجا بھی سکتا ہے
دَشتِ شوق میں سیلِ ریگاں
نقشِ پا مِٹا بھی سکتا ہے
خودداری ہے گو سرمایہ کُل
حق پر وہ، لُٹا بھی سکتا ہے
پردے پڑے ہیں خِرد و نظر پر
ان کو تُو، ہَٹا بھی سکتا ہے

0
122