محبی چھوڑ کر جانے لگے ہیں
ہمارا من ہی تڑپانے لگے ہیں
رفیقِ بزم ہی جب روٹھ جائیں
"دلوں کے پھول مرجھانے لگے ہیں"
ہمارے درمیاں امجد تھے سب میں
وہ اب باغِ عدن چھانے لگے ہیں
گلستانِ ادب کو بخشی زینت
لکھے اشعار سب بھانے لگے ہیں
سلیمِ فکر سے جزبے نکھارے
سُخن فہمی کو ہم پانے لگے ہیں
عقیدت میں ہُوئے سرشار سارے
سبھی ان کے جو دیوانے لگے ہیں
ادا کیا تعزیت ناصؔر سے ہو جب
اداسی اور غم کھانے لگے ہیں

0
44