ہمیں اس شہر میں رہنا نہیں ہے
ہمیں جذبات میں بہنا نہیں ہے
بجا ہے ناز اس کو حسن پر تو
مگر کیا اس نے بھی ، گہنا نہیں ہے
سجے گی مسکراہٹ خوب رُخ پر
اسے ، اس نے مگر پہنا نہیں ہے
رقیبوں کو تو یہ سننا پڑا ہے
تمہارے گھر میں کیا بہنا نہیں ہے
غلط ہم کو سکھایا یہ گیا ہے
غلط کو بھی غلط کہنا نہیں ہے
بتائیں تو سہی طارق ہوا کیا
خموشی سے تو دکھ سہنا نہیں ہے

0
15