شاید کہ جاگ جائے تِری غیرت آج کل
لکھنے کی اور نہیں ہے کوئی صورت آج کل
دم توڑتی ہی جا رَہی ہے ہمت آج کل
جمہوریت کی ہے سَبھی کو حسرت آج کل
کرنی تھی پاسبانی جنہیں ملک و قوم کی
پامال خود وہ کر رہے ہیں حرمت آج کل
اِس سے بھی آہ آ رَہی ہے رہزَنی کی بُو
یہ جو بَنا ہے راہبَرِ ملت آج کل
عرصہ لگے گا شاید اِسے ختم کرنے مِیں
دل مِیں بہت پَنپ رَہی ہے نفرت آج کل
جن کے لیے ہمارے لبوں پر دعائیں تھیں
افسوس وہ ہیں مستحقِ لعنت آج کل
کوئی نہ بولتا ہے نہ سر کو اُٹھاتا ہے
اہلِ سخن کی کھو گئی ہے حشمت آج کل
آواز اُٹھانا ہم وَطَنوں ظلم کے خلاف
زندہ کَرو نبی کی یہ بھی سنت آج کل
شاہدؔ یہاں دوام کسی شے کو بھی نہیں
تخت و کلاہ کی رَہے گی لذت آج کل

0
37