سنتے سناتے غیر کی بابت چلے گئے
لو قصّہ خوانِ بارِ رفاقت چلے گئے
احساسِ جرم ہی سے ہو تسکینِ میزباں
مہمان پیشِ وقتِ مدارت چلے گئے
جاں بھی گئی کہ بچ گئی کرتے ملال کیا
صد شکر جانِ وجہِ ملامت چلے گئے
اتنے الم خوشی سے رہے تاکتے کہ ہم
ملنے غموں کو وقتِ مسرت چلے گئے
یوں لہلہا اٹھی کبھی فصلِ بہارِ دل
گویا برس کے اشکِ ندامت چلے گئے
آسودگی میں کھو گئی آسودگی کہیں
کتنے ہی دن جو باعثِ راحت چلے گئے
مایوسیوں نے وقت کو معدوم کر دیا
یک لخت حوصلے کسی ساعت چلے گئے
انجامِ کار ہو گیا پھر بھی فروغِ جاں
تاریکیوں کی کرتے ضیافت چلے گئے
پھر جگمگا اٹھی کوئی اُمیدِ زندگی
پھر روشنی میں حرفِ شکایت چلے گئے
کچھ ہو گئے خیانتِ ہستی کے مرتکب
اور کچھ نبھا کے کارِ امانت چلے گئے
ان کو بھی خود امید نے دکھلا دیا وطن
جو بے خودی میں کوچۂِ حسرت چلے گئے
حق کی سلامتی میں تھی پنہاں سلامتی
ظاہر ہوا تو کوئے صداقت چلے گئے
کیا معجزہ نہیں تھا کہ ایماں سمیٹ کر
دشوار زندگی سے سلامت چلے گئے
جھکتا کسی سراب کے آگے وقارؔ کیا
صحرا چُھٹا تو وادیِٔ رحمت چلے گئے

0
58