ظُلمت دبائے کہاں تک کوسِ نَمودِ سَحر کو
جذبہ اُٹھا لاتا ہے تہِ آب مدفن گُہر کو
کوتاہ بینی کی ہو سکتی وجہ آنکھوں کے جالے
الزام عائد عبث ہے شرمندہ ہوتی کُہر کو
انجم شناسی تری میرِ کارواں ہے مُسلّم
بے فائدہ مشقِ انجم بینی ہے یہ دو پہر کو
پھر سینہِ بحر میں ہیں مغرور موجیں تو کیا ہے
عزمِ مُصمّم سے جاری رکھنا مگر تم سفر کو
ہے عقل سے ماورا فہمِ نفسِ انساں اگرچہ
کب چھوڑیں گے وہ بِٹھانا سانچوں میں اپنے مہِؔر کو
---------٭٭٭--------

131