عقل نے کردی دیر آنے میں
عشق لے بھی چکا تھا کام اپنا
چل پڑے ہم راہوں میں خاموش
ہر قدم میں چھپ گیا عالم اپنا
دیکھا جو چہرہ اُس نے کبھی
دل میں اتر گیا سلام اپنا
وقت کے ہاتھ میں چھوٹ گئی تقدیر
پر عشق نے لکھ دیا نام اپنا
آنسو بکھرے تو محفلوں میں
خواب سنوار گیا مقام اپنا
ہر اک لمحہ، ہر اک یاد اُس کی
چھپا کے رکھ لیا دل میں آرام اپنا
ندیمؔ کہتا ہے، دل کی یہ کہانی
چھپائی نہیں، اب بھی سامنے نام اپنا
ہر سانس میں بستا ہے خوابِ وصال
دل کی گہرائیوں میں رہ گیا حال اپنا

0
6