خزینہ خود بخود آ کر سرِ ساحل نہیں ملتا
نہ آنکھیں دیکھتی ہوں جب مہِ کامل نہیں ملتا
کمی عقل و خرد کی دیکھنے کو تو نہیں ملتی
مگر ڈھونڈے سے بھی جوہر کوئی قابلِ نہیں ملتا
چھپا کر مار پھرتے ہیں بہت سے آستینوں میں
نگاہوں سے چلائے تیر جو قاتِل نہیں ملتا
مجھے الزام دیتے ہو کہ حق سے دور ہوں گویا
مرا دل چیر کر دیکھو کہیں باطل نہیں ملتا
مرے چاروں طرف دیوار سچائی کی ملتی ہے
کوئی جھوٹا مرے گھر میں ہوا داخل نہیں ملتا
مرے حق میں سبھی ہوں فیصلے افسوس ہے لیکن
کوئی منصف وطن میں اب مرے عادل نہیں ملتا
نہیں ہے ہچکچاہٹ اب بتوں کی پوجا کرنے میں
خدا کی معرفت پائے جو وہ عاقل نہیں ملتا
نظر آیا نہ عالِم اس جہاں کو چھان کر دیکھا
جو کہلاتا ہے فاضل علم کا حامل نہیں ملتا
بہت سے جادو ٹونہ کر بھی دیتے ہیں جہاں والے
مرا جو کام کر دے وہ کہیں عامل نہیں ملتا
چنا تھا رہنما تجھ کو مسلماں جان کر میں نے
ترے جیسا مجھے کوئی مگر غافِل نہیں ملتا
تڑپتا ہوں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر اکثر
تجھے طارق نہ یہ کہہ دے کوئی بسمل نہیں ملتا

0
7