ہمارے دل میں غم بے شمار رہتا ہے
ہمارے سر پر تو جو سوار رہتا ہے
مری اداسی کو چھوڑ اور بتا مجھ کو
بچھڑ کے مجھ سے تو بے قرار رہتا ہے
نشہ جو تھا وہ اب ہے اتر گیا سارا
کسی کی چاہت کا پر خمار رہتا ہے
ملا تھا وہ مجھے اک دن کسی شفا خانے
گیا وہ دن مجھے ہر دن بخار رہتا ہے
تمہارے تک پہنچا تھا وہ کتنی مشکل سے
تو ہے کہ ہر پل اس سے بے زار رہتا ہے
شعیب شوبیؔ

0
57