قسم میرے ہی سر کی جو کھانے لگے
اب نہ کیسے کروں میں یقیں دوستو
فاصلہ اس قدر درمیاں آ گیا
آسماں وہ اگر میں زمیں دوستو
آیا قاصد پیامِ صنم لے کے یہ
وہ بلا ہیں رہے آستاں پہ تجھے
جب پہنچا دَرِ یار پر تو کہا
ایسا بدبخت مارو وہیں دوستو
میری قسمت خدا نے ہے ایسی لکھی
ہاتھ میرے ہمیشہ ہی خالی رہے
لفظ کاغذ پہ لکھتا جدائی کا وہ
جب بھی ہوتا کسی کے قریں دوستو
ہاتھ میں نے اٹھا کے جو کی بد دعا
اے خدایا مری جان لے لے ابھی
بات کو سن کے پہلے وہ چپ سا ہوا
پھر اچانک سے بولا امیں دوستو
روح کب کی مِری مر چکی باخدا
لاش میں زندگی کی لئے پھر رہا
کاٹ دو اب گلہ یا کہ نشتر پرو
اب تو ہر بات پر ہے امیں دوستو
شوق کس کو بھلا جان دینے کا تھا
خود کشی کا نہ الزام دو اب مجھے
مر کے کیسے دکھاتا نہیں پھر انہیں
یوں جو آتا نہیں تھا یقیں دوستو
اتنی جلدی مجھے کیوں دفن کر دیا
دم نکلنے تو دیتے ذرا ٹھیک سے
ڈال دی خاک آنکھیں کھلی تھیں مری
آفریں , آفریں , آفریں , دوستو

15