بڑا سکون ملا عرضِ مدعا کرکے |
کوئی بھی کچھ نہیں پاتا، مگر دعا کرکے |
کسی کے پاس نہیں کچھ مگر عمل یارو |
ملا ہے سب کو، مگر قرضِ جاں ادا کر کے |
جو دسترس ہی نہیں اپنے دل پہ کوئی تو |
بتا ملے گا مجھے کیا تجھے بُھلا کر کے |
بس ایک عہد وفا تھا نبھا دیا ہم نے |
تمام عمر بتائی خدا خدا کرکے |
زمانہ لاکھ سمجھتا رہے گدا، تیری |
گلی سے روز گزر تے ہیں ہم صدا کر کے |
خدا ہر اک کے لئے در کشادہ رکھتا ہے |
مگر جو لوگ فسردہ نہوں خطا کر کے |
وہی تو لوگ خدا کو حبیب ہوتے ہیں |
گئے جہاں سے مگر جان و دل فدا کر کے |
معلومات