جو شاہِ شاہاں نورِ یزداں مالک و مختار ہیں
رحمت ہے ان کی چار سو کونین کے دلدار ہیں
عکسِ جمالِ کبریا آقا حبیبِ دو سریٰ
کونین کی ہیں جانِ جاں اور رونقِ گلزار ہیں
جواد ایسے غمزدوں کو دان جو دیتے ہیں عام
وہ بے بسوں کا ماویٰ ملجا ہمتِ لا چار ہیں
تھیں ظُلمتیں جو کُفر کی ذاتِ نبی نے دور کیں
ذاتِ حسیں کے نُور سے تاباں در و دیوار ہیں
منظر میں دیکھیں حُسنِ جاں آقا کریمی کرم ہو
یہ ملتجی ہیں منتظر اور طالبِ دیدار ہیں
آقا شفیعِ مُجّرِماں اے چارہ گر اے مہرباں
کوتاہیوں کا یا حبیبی کر رہے اقرار ہیں
ہے خوف دل میں حشر کا پلّے خزیں کے کُچھ نہیں
عصیاں خطا کے میرے آگے یہ بڑے انبار ہیں
تولے جو سب کے جائیں گے اعمال ہادی حشر میں
اذنِ شفاعت مانگتے سب اُمتی سرکار ہیں
کوئی رہے محرومِ بَخشش یہ کبھی مُمکِن نہیں
محبوبِ حق مشکل کشا جب شافی و غمخوار ہیں
اخلاق میرے پست ہیں اور کام بھی سیدھے نہیں
لیکن مخیر ذات کے پیارے سخی دربار ہیں
محمود پر کر دیں کرم ہادی حبیبِ کبریا
آقا کریمی مصطفیٰ جو مالک و مُختار ہیں

47