سمے کی چٹانوں میں
نویلی داستانوں میں
کُچھ پُرانی یادوں کی
کھٹاس باقی رہتی ہے
اک کسک جو وقت کی گرد میں دب گئی ہو
آخری زمانوں میں
کچے مکانوں میں
پہلی پہلی محبت کی
کاش باقی رہتی ہے
تُم چاھے کہتے ہو
بہت ہی خُوش رہتے ہو
سیاہ آسمانوں میں
دل کے ویرانوں میں
آس باقی رہتئ ہے
رات کے جوبن میں
لمس کے لوبھن میں
نچڑتی شریانوں میں
بھولے افسانوں میں
بچھڑے ہوئے ساتھی کی
باس باقی رہتی ہے
یہ پھر طے ہوا
کہ جو کُچھ بھی ہوا
لوگوں کی زبانوں میں
جسم کے گلستانوں میں
سیر چشم ہو کر بھی
پیاس باقی رہتی ہے
اور
کُچھ بھی نہ رہے پھر بھی
پچھلے زمانوں میں
آنگنی میدانوں میں
بے پرواہ کھیلنے کی
وقت کو واپس پیلنے کی
کاش! باقی رہتی ہے
فیصل ملک

0
98