| مسکرا مسکراہٹ سے مدہوش کر |
| دل دکھایا ہے جس نے فراموش کر |
| تیرے بھیدوں پہ پردہ خدا ڈالے گا |
| تُو بھی لوگوں کے سب بھید رُوپوش کر |
| ابنِ آدم دلوں میں اُتر اس طرح |
| میٹھی گفتار آنکھیں حیا کوش کر |
| آ اِدھر بیٹھ بچپن کی باتیں کریں |
| ساتھ میرے کبھی چائے بھی نوش کر |
| جا چکا وہ پلٹ کر نہیں آئے گا |
| اے دلِ نا سمجھ! کچھ سنبھل ، ہوش کر |
| آنکھیں آنکھوں میں ڈال ، اُس کے چہرے کو پڑھ |
| اَن کہی بات سُن ، اُس کو خاموش کر |
| وقت تیرا تعارف لکھے اس طرح |
| شوخ ایسا تُو لکھ خوں کو پُرجوش کر |
معلومات