جب سے اس سے ہوا ہے پیار مجھے
خود سے اب چاہیے فرار مجھے
وعدہ خود سے تھا لوٹ آنے کا
خود کا کب سے ہے انتظار مجھے
آدھے رستے سے لوٹ جاتا ہوں
نہیں خود پر کچھ اختیار مجھے
اس پہ میں اعتبار کیسے کروں
خود پہ آیا نہ اعتبار مجھے
اس کے تیور کچھ آج ایسے ہیں
کرنے نکلا ہے وہ شکار مجھے
جب سے وہ چھوڑ کر گیا شاہد
پھول لگنے لگے ہیں خار مجھے

0
32