یوں لگ رہا ہے کہ ہے کچھ نہ کچھ اثر باقی
نہ میکدہ رہا مے ہے نہ بُوند بھر باقی
یقیں ہے کل یہاں انسان گھر بنائے گا
نقوشِ پا ابھی اس کے ہیں چاند پر باقی
لکھی ہے خط میں اسے دل پہ جو بھی گزری ہے سب
سلام لکھنا اسے رہ گیا مگر باقی
گئے تھے یاد ہے اک روز اس کی محفل میں
ہے ذکر اس کا ابھی تک زبان پر باقی
وہ دور پار سمندر سے جا بسے سارے
فقط ہیں منصفوں کی کرسیاں دفتر باقی

0
17