موتی جب اندر کے ظاہر ہونے لگے
لوگوں کی نظروں میں ہم شاعر ہونے لگے
سوچا حُسن غزل میں کر دیں اُنکا بیاں
عاجز سب مہ و گل و ساغر ہونے لگے
حُسن چُرایا ہو گا اُسی پیکر سے کہیں
بے جاں مناظر کیوں بھلا ساحر ہونے لگے
خوب ہے سودا تم نے کِیا جو بھی ہے کیا
خاک پے سرِ شام وہ حاضر ہونے لگے
کیوں کریں وہ انگشت نُمائی مزاح میں ہی؟
مِؔہر یوں اپنے آپے سے باہر ہونے لگے
----------٭٭٭---------

0
146