رات گئے تک کیوں کر اشک پروتی ہیں
اب یہ آنکھیں کس کے غم میں روتی ہیں
ایک پری وش میں نے وہاں پر دیکھا ہے
جھیل کنارے سچ میں پریاں ہوتی ہیں
دیکھ وہ پربت کیسے اجلے اجلے ہیں
جیسے ان کا چہرہ کرنیں دھوتی ہیں
میرے ہاتھ میں سب کچھ تو نایاب نہیں
کجھ ہیرے ہیں کچھ پتھر کچھ موتی ہیں
ان کلیوُں کی مانگ بہت ہے گلشن میں
جو کلیاں پھولوں کی سیج پہ سوتی ہیں
جانے کتنے عشق جنم لے لیتے ہیں
جب بوندیں اک نازک جسم بھگوتی ہیں

0
75