ایک بار زندگی تھی وہ بھی ہم جیے نہیں
تھے سوال پر کبھی جواب ہی لیے نہیں
ہم تو ضد پہ اڑ گۓ یہ دشمنی انا کی تھی
کام جو کہے گۓ وہ کام ہی کیے نہیں
زخم تو لگے بہت مگر کوئی گلہ نہیں
پیپ بھی بہی بہت وہ زخم پر سیے نہیں
انگلیاں اٹھیں بہت برا بھلا کہا گیا
منہ میں تھی زباں مگر جواب ہی دیے نہیں
شامِ زندگی میں آ کے رحم ان کو آ گیا
جام ان کے ہاتھ سے لیے مگر پیے نہیں

0
47