ایک بار زندگی تھی وہ بھی ہم جیے نہیں |
تھے سوال پر کبھی جواب ہی لیے نہیں |
ہم تو ضد پہ اڑ گۓ یہ دشمنی انا کی تھی |
کام جو کہے گۓ وہ کام ہی کیے نہیں |
زخم تو لگے بہت مگر کوئی گلہ نہیں |
پیپ بھی بہی بہت وہ زخم پر سیے نہیں |
انگلیاں اٹھیں بہت برا بھلا کہا گیا |
منہ میں تھی زباں مگر جواب ہی دیے نہیں |
شامِ زندگی میں آ کے رحم ان کو آ گیا |
جام ان کے ہاتھ سے لیے مگر پیے نہیں |
معلومات