عقل کی اِک نہ سنی عشق کو اُستاد کِیا
ہم نے لَبّیک کہا دل نے جو اِرشاد کِیا
اُس نے لیلیٰ کبھی ہِیر اور کبھی شِیریں بن کر
ہم کو مجنوں کبھی رانجھا کبھی فرہاد کِیا
اِک شکاری کو ترے غم نے بنایا قیدی
اِک پرندے کو ترے عشق نے آزاد کِیا
یہاں تسلِیم ہی تسلِیم ہے تحقِیق نہیں
مکتبِ عشق میں ہم نے یہ سبق یاد کِیا
تیری چادر نے عطا کی ہےدھنَک کو رنگت
تیری پائل کی کھنَک نے سخن ایجاد کِیا

2
42
بہت اچھے

0
اچھا کہا ہے جناب

0