یہ جرأتِ رندانہ ، اندازِ ملوکانہ
بے خوف و خطر جینا ہے طرزِ مسلمانہ
اس موت سے ملنے میں کیا وصل کی راحت ہے
جس موت کی منزل ہو معشوقۂ مستانہ
کیا قلب و جگر تو نے اے رند کہ پایا ہے
جاں سوز صبوحی سے لبریز ہے پیمانہ
اے ساقی ! ذرا اپنے رندوں کی خبر تو لے
ہر روز ہی ہوتا ہے خالی ترا میخانہ
مسجد تو مسلماں کا پل بھر میں ہے خاکستر
گر گر کے سنبھلتا ہے اغیار کا بتخانہ
یہ کیسی محبت ہے ان مجنوۓ ناداں کی
لیلی کی زمیں پر کیوں پھرتے ہیں یہ بیگانہ
دیوانے ہوۓ اوجھل صحراؤ بیاباں سے
وہ دشتِ جنوں لیکن اب تک کہ ہے ویرانہ
سینے میں ہے دل اب بھی باقی ہیں عزائم بھی
بس شوق کو دکھلادے تو رستۂ پیرانہ
گرتے ہیں مسلماں پر حالات کی بجلی جو
دل بسکہ ہے بن بیٹھا یہ دنیاۓ غمخانہ
یا دل وہ میسر کر یا سوز سے خالی کر
لبریز ہوا جاتا ہے اب صبر کا پیمانہ
سینے میں لیے آزردہ دل تھام کے بیٹھے ہیں
کہ خیرِ امم آخر بن جائے نہ افسانہ
یا ان کو دکھا دے تو اب موت کا آئینہ
یا ان کو عطا کر دے وہ قوّتِ مردانہ

1
84
شکریہ