حکمِ کُن خالق سے جو ہستی کو فرماں مِل گیا |
فخر موجودات سے تب اس کو ساماں مِل گیا |
حیراں سی وہ زندگی بے تاب تھی جو ہجر میں |
دِل جلوں کے کارواں تھے خوب استھاں مِل گیا |
رونقیں ہستی میں ہیں کونین کو ہے جاں مِلی |
داریں کی اِس بزم کو ہے نورِ یزداں مِل گیا |
اِس نمودِ خاک کی بہبود کے بھی واسطے |
اِک حکیمِ جان و دل اکسیر درماں مِل گیا |
ظُلمتِ خناس میں مخلوق تھی بھٹکی ہوئی |
ذاتِ باری پر دلوں کو بھی ہے ایقاں مِل گیا |
شکر ہم نے پا لیا ہے نِعمتِ رَبّ کو تمام |
کل خدا کی خلق کو مختارِ شاہاں مِل گیا |
رہبری کے واسطے تھا چاہیے دانائے راز |
انبیا سے لا مکاں میں عہد و پیماں مِل گیا |
تیرگی کے پنجہ میں تھا یہ جہاں جکڑا ہوا |
اہلِ دل کو خیر سے دامانِ تاباں مِل گیا |
نور سے روشن ہوئے اذہان کے چشم و چراغ |
جلوہ گاہِ کون کو ہے شمسِ تاباں مِل گیا |
دیکھ کر حق کی شہادت دھر میں کوئی دے سکے |
اس سند کے واسطے یزداں کو مہماں مِل گیا |
جو جبیں میں ہے تڑپ بابِ سخا کی ہر گھڑی |
عصمتِ محمود کو ہے اس سے ساماں مل گیا |
معلومات