پھر لیا تو نے مرا نام خدا خیر کرے
ہاتھ میں آنے لگا جام خدا خیر کرے
سوچتا ہوں کہ تری بات پہ کر لوں میں یقیں
پھر بھلے کچھ بھی ہو انجام خدا خیر کرے
عشق گر ہو تو چلائے بھی نہیں چلتی زباں
آنکھ سے ہوتا ہے سب کام خدا خیر کرے
محفلِ یار ہو مے خانہ یا مسجد ہو کوئی
ان کا حاصل ہے فقط جام خدا خیر کرے
دلِ بے حال تجھے کس کا ہے یہ روگ ملا
کہ تو مدحوش ہے تا شام خدا خیر کرے
مے کدے جھوم کے ہے آج تری فتحِ مبیں
شیخ آتا ہے لئے جام خدا خیر کرے
لذتِ دید،سکوں، چین، ہے تجھ سے ہی مرا
تو بنا ہے مرا آرام خدا خیر کرے
پھر اسی جاں سے مجھے عشق ہوا چاہتا ہے
ڈر ہے ہوجاؤں نہ ناکام خدا خیر کرے
بھری محفل میں مری سمت جو تو نے کی نظر
دل کو رکنے کا نہیں نام خدا خیر کرے
ایک خط آج ہے حیدر مجھے موصول ہوا
اس نے بھیجا ہے یہ پیغام خدا خیر کرے

0
72