| ستمگروں کی بستی میں، |
| ہر درخت پر ایک کہانی لکھی ہوئی ہے، |
| ہر گھر کی دیوار پر، |
| دیکھے گئے دکھوں کے نشان ہیں۔ |
| یہ بستی... |
| جہاں امیدوں کے رنگ مدھم پڑ چکے ہیں، |
| جہاں خوابوں کی روشنی ماند پڑ گئی ہے، |
| اور دلوں کی دھڑکنوں میں |
| دھوکے اور لُوٹ کے سائے ہیں۔ |
| یہ بستی... |
| جہاں محبت کے معنی بدل چکے ہیں، |
| جہاں ہر لفظ میں چُھپے ہیں زہر کے قطرے، |
| جہاں ہر ہاتھ میں خون کے دھبے ہیں، |
| اور ہر آنکھ میں خوف کا عکس۔ |
| ستمگروں کی بستی میں، |
| ہر کسی کی زبان میں ایک گھناؤنی مسکراہٹ ہے، |
| جہاں انسانیت کے اصول |
| دوسرے دن تک بھلا دیے جاتے ہیں۔ |
| اور ہم... |
| ہم اس بستی میں زندہ ہیں، |
| نہ مکمل انسان، نہ مکمل وحشی، |
| بس ایک اذیت کے بیچ پھنسے ہوئے، |
| ستمگروں کی بستی کے باسی۔ |
معلومات