مار غربت سے کھائے ہوئے ہیں
قسمتوں کے ستائے ہوئے ہیں
جیت کر آج ہم کیا کریں گے
ہم ازل سے ہرائے ہوئے ہیں
زخم وہ آئے سینے ہمارے
ہم نے دل میں چھپائے ہوئے ہیں
ان کو امید ہم سے وفا کی
ہم تو خود سے پرائے ہوئے ہیں
دشمنوں کا گلہ کر کے حاصل
دوست بھی آزمائے ہوئے ہیں
کھود کر اپنی ہم قبر شاہدؔ
کوئے قاتل میں آئے ہوئے ہیں

36