یادوں کی رت ہے ذہن ہے امساک کی طرح |
عاری ہے سب تخیلِ کاواک کی طرح |
بولی لگی جو شہر میں لفظوں کی صنف پر |
بیچی زبان سب نے ہے املاک کی طرح |
عالم، شیوخ، مفتی و ملا مزاج لوگ |
کیوں دیکھتے ہیں عقل کو خاشاک کی طرح |
کہنے کو اس جہان میں کہنے کی چھوٹ ہے |
لیکن قفس میں طائرِ پر چاک کی طرح |
کرتا ہے یاد لمحہ بہ لمحہ فراق کو |
ہے ذہن اپنا دشمنِ سفاک کی طرح |
دل کے کسی دریچے پہ ڈھلتی ہے دوپہر |
پھر ہے مزاج آج جگر چاک کی طرح |
حیدر ہماری جاں پہ بن آئی ہے عشق میں |
ہوگا کہیں جہاں میں یہ تریاک کی طرح |
معلومات