| دنیائے بے ثبات میں انساں کی ہے طلب |
| پھر آج مجھ کو صاحبِ ایماں کی ہے طلب |
| گھمبیر خامشی مرے دل پر محیط ہے |
| جیسے کہ میرے دل کو بھی طوفاں کی ہے طلب |
| شاید کہ حشر میں یہی وجہِ نجات ہوں |
| راہِ وفا میں حسرت و حرماں کی ہے طلب |
| اپنی نگاہِ دین کی تجدید کے لئے |
| پھر اک سراپا صورتِ قرآں کی ہے طلب |
| اجڑے ہوئے چمن کو بسانے کی جستجو |
| دورِ خزاں میں فصلِ بہاراں کی ہے طلب |
| پھولوں کی سیج، ابر کا سایہ،شمیمِ گل |
| یعنی رسولِ پاک کے داماں کی ہے طلب |
معلومات