کہیں تو کہیں کس کو اپنا یہاں
کوئی بھی نہیں ہے کسی کا یہاں
شرابِ کہن سے بھرا ہے جہاں
بھلا کون ہے جو نہ کھویا یہاں
عدو کا کیا ہے نہ غیروں میں دم
کسی اپنے ہی تو ڈبویا یہاں
نشہ ہے مجھے لب و چشمِ صنم
اثر مے کا کیا مجھ پہ ہوتا یہاں
لیے آئے نا لے چلے یاں سے کچھ
تو میں کچھ بھی ، کھویا نہ پایا یہاں
فسوں ساز تھیں آنکھیں وہ کس قدر
کنویں میں ، میں خود دل ڈبویا یہاں
ہے شیطان بدنام یونہی یہاں
بشر سے بڑا شر تو ہے کیا یہاں
اے وحشت کدائے جنوں تو مگر
کسی کو بھی گھر کا نہ چھوڑا یہاں
فقط ہم نہیں یار ناکام ، عشق
وصالِ صنم تو کسے تھا یہاں
(زبیرعلی)

0
11