شمع دل ذکرِ جاناں سے تاباں کریں
دل کی تسکیں کا کوئی تو ساماں کریں
مہ پری کے حسیں گال کے نور سے
دل کی تاریکی کو ہم چراغاں کریں
اے مری دلربا تجھ کو کیا کیا کہوں
حسن کی افسرہ، سروِ رعنا کہوں
ہو حسیں زلف خوش لہجہ رشکِ قمر
میں تجھے کوئی حسنِ سراپا کہوں
گال پر کوئی پیارا سا ہے ایک تل
موہتی کوئی کوئل سی آواز دل
سروِ لالہ بدن اور مہک عنبریں
گل سے بھی نرم ہونٹوں پہ کالا سا تل
کوئی دلکش سا ہے نسترن پیرہن
گوری رنگت بنے قلب کی راہزن
ہیں شبِ داج سے زلف کے پیچ و خم
اک ادا سے ہی دل موہ لینے کا فن
جب سے اس کی نگاہوں سے بادہ پیا
پھر کوئی عاجز اپنا رہا ہوش کیا

0
5