ہمیں غرض نہیں کس کو خدا سے ملتا ہے
ہمیں تو رزق درِ مرتضیٰ سے ملتا ہے
علی کے نقشِ قدم ہیں نجات کا رستہ
یہ راستہ ہے وہی جو خدا سے ملتا ہے
فضیلتیں تو ہیں مرہونِ منتِ حیدر
فضیلتوں کو شرف مرتضیٰ سے ملتا ہے
علی کی ذات تو سر چشمۂِ فضیلت ہے
فضیلتوں کو شرف مرتضیٰ سے ملتا ہے
ستم کے شور میں حق کی صدا بلند رہے
یہ درسِ جرّتِ حق کربلا سے ملتا ہے
علی کا لہجہ خدا کا ہے پھر تردّد کیا
جو کہہ دیں لہجۂ زینب خدا سے ملتا ہے
شہادتِ علی اصغر کے منحرف سن لے
ضرور تیرا نسب حرملہ سے ملتا ہے
ظہیر رنج و الم جب ہمیں ستاتے ہیں
بہت سکون تمہاری عزا سے ملتا ہے
دعائیں، عزّوشرف، مرتبہ، محبّت، پیار
فقط ظہیر یہ شہ کی ثنا سے ملتا ہے

0
38