حضور کا پر غرور رہنا
قریب رہ کر بھی دور رہنا
کھلا ہے دروازہ شہر دل کا
جو چاہو اس میں حضور رہنا
نہ آشنائی نہ قربتیں ہیں
تو پھر یہ کیوں دور دور رہنا
حذر کہ جس کو بھلا رہے ہیں
اسی کا تحت الشعور رہنا
پناہ، سورج کی روشنی میں
سیاہ راتوں کا گھور رہنا
سکون ہے، بے سکونیاں ہیں
شعور میں، بے شعور رہنا
بتاؤ یاں بھی نصیب ہے کیا
سکوں سے اہلِ قبور رہنا
نصیب کب ہے سکون ہم کو
مگر تمہارے حضور رہنا
حبیب تم مسکراتے جاؤ
اگر چہ زخموں سے چور رہنا

0
25