اوروں کے زخم کے نشاں تک بھی نہیں رہے |
خود کو دیئے جو زخم وہ اب تک نہیں بھرے |
ہم پر شریف ہونے کی پرچی چپک گئی |
کثرت سے سوچتے رہے کچھ کر نہیں سکے |
وہ آنا چاہتا ہے پلٹ کر ہمارے پاس . . |
لیکن جو پہلے ہم تھے وہ اب ہم نہیں رہے |
جب بھی زباں تک آئے وہ ہر بار پی لیے |
وہ لفظ آج تک کبھی اس سے نہیں کہے |
جاہل معاشرے میں کئی لفظ تھے حرام |
جو لکھنا چاہتے تھے وہ ہم نے نہیں لکھے |
شاہدؔ سمجھ میں آئی ہے جب سے یہ زندگی |
یہ ہاتھ پھر دعا کے لیے بھی نہیں اٹھے |
معلومات