اوروں کے زخم کے نشاں تک بھی نہیں رہے
خود کو دیئے جو زخم وہ اب تک نہیں بھرے
ہم پر شریف ہونے کی پرچی چپک گئی
کثرت سے سوچتے رہے کچھ کر نہیں سکے
وہ آنا چاہتا ہے پلٹ کر ہمارے پاس . .
لیکن جو پہلے ہم تھے وہ اب ہم نہیں رہے
جب بھی زباں تک آئے وہ ہر بار پی لیے
وہ لفظ آج تک کبھی اس سے نہیں کہے
جاہل معاشرے میں کئی لفظ تھے حرام
جو لکھنا چاہتے تھے وہ ہم نے نہیں لکھے
شاہدؔ سمجھ میں آئی ہے جب سے یہ زندگی
یہ ہاتھ پھر دعا کے لیے بھی نہیں اٹھے

0
16