ہے وقتِ سفر آخری آئے گا نہ بھیا
گھبرانہ نہ بہنا
تیروں پہ بدن نیزے پہ سر میرا یہ ہوگا
گھبرانہ نہ بہنا
بازو میں رسن باندھے گے اور چھینیں گے چادر
یہ سارے ستم گر
پردے کیلئے بالوں سے چہرے کو چھپانا
گھبرانہ نہ بہنا
نازوں کی ہے پالی یہ سکینہ بھی ہماری
جاں اس پہ ہے واری
ممکن ہو توبیٹی کو طمانچوں سے بچانا
گھبرانہ نہ بہنا
پامال مرے لاشے کو دیکھو یہ کریں گے
پھر بھی نہ رُکیں گے
سر تن سے جدا دشت میں کر دیں گے یہ اعدا
گھبرانہ نہ بہنا
خیمے کو ہمارے یہ جلائیں گے پھر آ کر
اے زینبِؑ مضطر
اُن جلتے ہوئے خیموں سے عابدؑ کو ہٹانا
گبھرانہ نہ بہنا
لاشے پہ میرے آئے گی مقتل میں سکینہؑ
ہئے دل کا نگینہ
لاشے سے میرے بچی کو گودی میں اٹھانا
گھبرانہ نہ بہنا
خیمے میں پڑی غش میں ہے بے شیِرؑ کی مادر
مارا گیا اصغرؑ
تم غش سے اُٹھانا اسے سینے سے لگانا
گھبرانہ نہ بہنا
لیلیٰؑ کے جواں بیٹے کو برچھی سے ہے مارا
وہ گیسوؤں والا
لپٹی ہوئی جب روئے تو لاشے سے اُٹھانا
گھبرانہ نہ بہنا
صائب ہو بیاں کیسے وہ عاشور کا منظر
جب کہتے تھے سرور
پابندِ سلاسل ہے تمھیں شام میں جانا
گھبرانہ نہ بہنا۔

0
7