بے کسی ہے ، بے بسی ہے ، بے یقینی تو نہیں |
ظلم نے ایماں کی دولت مجھ سے چھینی تو نہیں |
سوچ کا انداز ہونا مختلف ہی جُرم ہے |
بن گئی ہجرت کا باعث ، بے زمینی تو نہیں |
سچ کو سچ کہنے کا مجھ پر دھر دیا الزام ہے |
سوچتا ہوں سوچ ہی اس کی کمینی تو نہیں |
خود مجھے کر کے الگ ، کہتے ہو ٹکڑے کر دیا |
ہوں سیاست سے پرے ، یہ دور بینی تو نہیں |
جھوٹ کی تم کو پسند آئی ہیں میٹھی گولیاں |
سچ کی پھر کڑوی دوا یہ تم نے پینی تو نہیں |
شعر میں ہو قافیہ پیمائی تو یہ دیکھ لو |
اس میں کچھ پوشیدہ معنی آفرینی تو نہیں |
صاف لفظوں میں بیاں کرتا ہوں طارق جو کہوں |
بات سیدھی ہے کسی پر نکتہ چینی تو نہیں |
معلومات